قرآن پاک Ú©ÛŒ Ø+فاظت
قرآن پاک سے پہلے کتابیں مثلا تورات، انجیل Ùˆ ابور وغیرہ ایک خاص وقت تک کےلئے اور خاص خاص قوموں کےلئے دنیا میں بھیجی گئیں اس لئے Ø+Ù‚ تعالٰی Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ Ø+فاظت کا ذمہ خود نہ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پیغمبران عظام Ú©Û’ دنیا سے پردہ فرمانے Ú©Û’ بعد وہ کتابیں بھی قریب قریب ختم ہوگئیں۔ لیکن یہ قرآن کریم سارے جہان کےلئے آیا اور ہمیشہ کےلئے آیا۔ اس لئے رب تعالٰی Ù†Û’ خود اس Ú©ÛŒ Ø+فاظت کا وعدہ فرمایا تھا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا- Ù†Ø+Ù† نزلنا الذکر وانا لہ Ù„Ø+افظون ہم Ù†Û’ ذکرو قرآن اتارا ہے اور ہم اس Ú©Û’ Ù…Ø+افظ ہیں۔ اور سبØ+ان اللہ! ایسی اس Ú©ÛŒ Ø+فاظت ہوئی کہ کوئی شخص اس میں زیر اور زبر کا فرق نہ کرسکا۔ اس Ú©ÛŒ Ø+فاظت کا ذریعہ ہوا کہ قرآن کریم فقط کاغذ پر ہی نہ رہا بلکہ مسلمانوں Ú©Û’ سینوں میں Ù…Ø+فوظ کیا گیا۔ صØ+ابہ کرام Ù†Û’ زمانہ Ú©ÛŒ Ø+الت تو ہم سنی سنائی بیان کرسکتے ہیں لیکن اس زمانہ میں تو مشاہدہ ہو رہا ہے کہ اگر کسی چھوٹے سے گاؤں میں بھی کسی مجمع Ú©Û’ سامنے کوئی تلاوت کرنے والا ایک زیر زبر Ú©ÛŒ غلطی کردے تو ہر چہار طرف سے آوازیں آتی ہیں کہ آپ Ù†Û’ غلط پڑھا۔ اس طرØ+ Ù¾Ú‘Ú¾ÙˆÛ” اور ہر زمانے ہر جگہ ایک دو نہیں بلکہ صدہا Ø+افظ پیدا ہوتے رہے۔ اس Ú©ÛŒ مثال یوں سمجھو کہ جب بچو سکول میں قدم رکھتا ہے تو چونکہ اسے ابھی کتاب سنبھالنے Ú©ÛŒ لیاقت نہیں ہوتی لہٰذا، اس Ú©Û’ استاد چھوٹے چھوٹے قاعدے اور کتابیں اس Ú©Ùˆ خرید کردیتے ہیں وہ بچہ کتابیں پڑھتا بھی جاتا ہے اور ضائع بھی کرتا جاتا ہے۔ جب کسی قدر ہوش سنبھالتا ہے تو اب کتابیں پھاڑتا تو نہیں لیکن ان پر Ù„Ú©Ú¾ Ù„Ú©Ú¾ کر خراب کرتا رہتا ہے۔ پھر جب خوب سمجھدار ہوجاتا ہے اور کتاب Ú©ÛŒ قدر Ùˆ قیمت پہچانتا ہے تو اب کتاب Ú©Ùˆ جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتا ہے۔ اسی طرØ+ دنیا سب سے پہلے خدائی کتابوں اور صØ+یفوں Ú©Ùˆ سنبھال نہ سکی تو ان Ú©Ùˆ برباد کر ڈالا۔ پھر تورات Ùˆ انجیل Ú©Ùˆ بالکل تو نہ مٹایا۔ مگر اپن طرف سے بہت Ú©Ú†Ú¾ اس میں غلط ملط کردیا۔ دنیا Ú©Û’ اخیر دور میں قرآن کریم تشریف لایا اور قدرت Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ سنبھالنے کا طریقہ سکھایا۔ تورات Ùˆ انجیل کسی زمانے میں بگڑی بگڑائی پائی جاتی ہوں Ú¯Û’Û” لیکن اب تو صفØ+ہ ہستی سے قریبا بالکل ناپید ہوگئیں۔ یہ جو پیسے پیسے Ú©ÛŒ یوØ+نا اور متی رسول Ú©ÛŒ انجیلیں فروخت ہورہی ہیں۔ وہ انجیل نہیں جو آسمان سے آئی تھی بلکہ اس Ú©Û’ ترجمے ہوں Ú¯Û’ کیونکہ وہ عبرانی زبان میں تھیں اور ترجمے مختلف زبانوں میں ہیں۔ جب وہ اصل کتاب ہمارے سامنے ہے ہی نہیں تو ہم کیسے معلوم کریں کہ یہ ترجمے اس Ú©Û’ صØ+ÛŒØ+ ہیں یا نہیں۔ بخلاف قرآن کریم Ú©Û’ کہ وہی قرآن اسی زبان میں بعینہ موجود ہے۔ جو صاØ+ب قرآن علیہ السلام پر اترا تھا۔ وہ کتابیں تو کیا باقی رہتیں، زبان عبرانی جس میں وہ کتابیں آئی تھیں وہی دنیا سے غائب ہوگئی۔ بلکہ مصر اور شام وغیرہ ممالک جہاں عبرانی زبان بولی جاتی تھی وہاں عربی۔ زبان Ù†Û’ اپنا سکہ جمالیا۔ اور اس قرآن پاک Ú©ÛŒ بدولت ہر ملک میں عربی زبان کا دور دورہ ہوگیا۔ چنانچہ الØ+مدللہ ہندوستان میں بھی لاکھوں Ú©ÛŒ تعداد میں عربی دان موجود ہیں۔ لیکن عبرانی جاننے والا ایک بھی نہیں ہے Ø+تٰی کہ مشن اسکولوں میں میں انجیل تو پڑھائی جاتی ہے مگر افسوس کہ عبرانی اور سریانی زبانیں وہاں بھی غائب ہیں یہ سب قرآن پاک اور صاØ+ب لولاک Ú©ÛŒ برکت ہے۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم Ø+یرت یہ ہے کہ قرآن پاک Ú©Û’ الفاظ Ù…Ø+فوظ اس Ú©Û’ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ طریقے۔ یعنی قرات (تجوید) Ù…Ø+فوظ کہ س، ص، ت، Ø·ØŒ Ú©ØŒ Ù‚ØŒ د، Ø°ØŒ ز، ض، ظ، مد، شدہ وغیرہ کس طرØ+ ادا کئے جائیں۔ طریقہ تØ+ریر بھی Ù…Ø+فوظ ہے۔ یعنی جس طرØ+ کہ صاØ+ب قرآن صلے اللہ علیہ وسلم سے تØ+ریر منقول ہے۔ اس Ú©Û’ خلاف قرآن پاک نہیں Ù„Ú©Ú¾ سکتے۔ بسم اللہ کا سین لمبا اور میم گول لکھا جاتا ہے کہ کسی قرآن پاک میں سین چھوٹا کرکے نہ لکھا جائے۔ بئس الاسم الفسوق Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ میں الاسم آتا ہے جیسا کلمات Ù†Ø+ÙˆÛŒ میں الاسم آتا ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ قرآن پاک Ú©Ùˆ عربی خط میں لکھا جائے، اردو خط یا نستعلیق نہ لکھا جائے۔ بعض بعض کلمات Ù†Ø+ÙˆÛŒ قاعدے Ú©Û’ خلاف معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ Ù¾Ú‘Ú¾Û’ ویسے ہی جاتے ہیں جیسے کہ ثابت ہوچکے۔ مثلا علیہ اللہ ما انسانیۃ لنسفعا وغیرہ وغیرہ ان چیزوں Ú©Ùˆ دیکھ کر Ø+یرت ہوتی ہے کہ سبØ+ان اللہ! قرآن پاک ایسا Ù…Ø+فوظ ہے کہ اس Ú©Û’ صفات تک Ù…Ø+فوظ۔ اگر کوئی منصف ان باتوں Ú©Ùˆ نظر انصاف دیکھے تو قرآن پاک Ú©Û’ قبول کرنے میں تامل نہ کرے۔ ان خوبیوں Ú©Ùˆ دیکھ کر بعض پادریوں Ú©Û’ منہ میں پانی بھر آیا۔ اولا " تو اس کوشش میں رہے کہ انجیل شریف Ú©Ùˆ Ù…Ø+فوظ کتاب ثابت کرسکیں مگر نہ کرسکے۔ بلکہ بہت سے Ù…Ø+ققین عیسائیوں Ù†Û’ مان لیا کہ انجیل شریف میں لفظی اور معنوی بیشمار تØ+ریفیں ہوئیں اور مان لیا کہ انجیل Ú©ÛŒ بہت سی آیتیں اور بہت سے باب الØ+اقی ہیں۔ دیکھو مسٹر ہارن اور ہنری اور اسکاٹ صاØ+ب Ú©ÛŒ تفاسیر اور دیکھو مباØ+شہ دینی مطبوعہ اکبر آباد مصنفہ پادری فنڈر وغیرہ بعض عیسائی پادریوں Ù†Û’ یہ کوشش Ú©ÛŒ کہ قرآن پاک Ú©Ùˆ Ù…Ø+رف ثابت کریں۔ چنانچہ عبدالمسیØ+ اور ماسٹر رام چندر اور پادری عماء الدین Ù†Û’ اس بارے میں رسالے Ù„Ú©Ú¾ ڈالے۔ یہ لوگ جس قدر اعتراض کرسکتے ہیں ہم ان Ú©Ùˆ علیØ+دہ علیØ+دہ سوال جواب Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں بیان کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان سے واقف ہوں۔


چنانچہ عبدالمسیØ+ اور ماسٹر رام چندر اور پادری عماء الدین Ù†Û’ اس بارے میں رسالے Ù„Ú©Ú¾ ڈالے۔ یہ لوگ جس قدر اعتراض کرسکتے ہیں ہم ان Ú©Ùˆ علیØ+دہ علیØ+دہ سوال جواب Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں بیان کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان سے واقف ہوں۔

سوال -- Ø+ضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ Ù†Û’ جب قرآن کا نسخہ تیار کیا تو Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ نسخوں Ú©Ùˆ جلوادیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن وہ نہیں ہے جو آسمان سے آیا تھا۔ بلکہ وہ جلایا جاچکا۔

جواب -- اس کا جواب دوسری فصل میں نہایت تفصیل سے گزرچکا کہ ان نسخوں Ú©Ùˆ جلوانا اختلاف Ú©Ùˆ مٹانے کےلئے تھا۔ کیونکہ ان میں قرآن اور تفسیری عبارات مخلوط تھیں۔ آیات کولے لیا گیا۔ اگر وہ نسخے باقی رہتے تو آئندہ بڑا اختلاف پیدا ہوجاتا۔ اس تفصیل Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اعتراض Ù…Ø+ض لغو ہے اور دھوکہ دینے کےلئے ہے۔


سوال -- تفسیر اتقاق اور بخاری شریف جلد دوم باب جمع قرآن میں ہے کہ Ø+ضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے کہ میں Ù†Û’ لقد جاءکم رسول والی آیت تمام جگہ تلاش Ú©ÛŒ مگر کہیں نہ ملی بجزابو خزیمہ انصاری Ú©Û’ کہ ان Ú©Û’ پاس یہ Ù„Ú©Ú¾ÛŒ ہوئی موجود تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اور آیتیں بھی اس طرØ+ Ú¯Ù… ہوگئی ہوں گی۔ نیز Ø+ضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ ایک آیت Ù„Ú©Ú¾ÛŒ ہوئی ہمارے پاس موجود تھی جسے بکری کھاگئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اور آیتیں بھی اسی طرØ+ برباد ہوگئی ہوں گی۔

جواب -- اگر ایسی ایسی دو چار سو روایتیں بھی جمع کرلی جائیں اور وہ روایتیں قابل قبول بھی ہوں اور کوئی بکری پورا قرآن بھی کھاگئی ہو تب بھی اصل قرآن کا ایک لفظ بھی ضائع نہیں ہوسکتا۔ یہ تو جب ہوتا جب قرآن پاک کا دارومدار تورات Ùˆ انجیل Ú©ÛŒ طرØ+ فقط دو چار نسخوں پر ہوتا۔ یہ تو مسلمانوں Ú©Û’ سینوں میں موجود تھا۔ کاغذ Ú©Ùˆ بکری اور گائے بھینس کھاسکتی ہیں۔ Ø+افظ Ú©Û’ سینے Ú©Ùˆ تو قبر Ú©ÛŒ مٹی بھی نہیں کھاتی۔ اسے کون کھائے گا۔ جناب وہ صØ+ابہ کرام کا زمانہ تھا۔ اگر آج بھی دنیا سے قرآن پاک Ú©Û’ سارے نسخے ناپید کردئیے جائیں تو ہندوستان Ú©Û’ کسی معمولی گاؤں کا ایک چھوٹا Ø+افظ بچہ بھی قرآن پاک بعینہ لکھواسکتا ہے۔


سوال -- مسلمان خود مانتے ہیں کہ قرآن پاک کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں کہ سورہ یٰسین سورہ بقرہ کے برابر تھی لیکن نسخ وغیرہ ہوکر کٹ کٹا کر اتنی باقی رہی۔ معلوم ہوا کہ یہ قرآن بعینہ وہ نہیں ہے کہہ جو آسمان سے آیا تھا بلکہ اس میں بہت سی تبدیلی ہوچکی ہے۔
جواب -- تØ+ریف Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ کتاب والے Ú©ÛŒ غیرموجودگی میں اس Ú©ÛŒ بغیر مرضی اس Ú©ÛŒ کتاب میں Ú©Ù…ÛŒ یا زیادتی کردی جائے۔ لیکن اگر صاØ+ب کتاب ہی اپنی مرضی سے اپنی کتاب میں Ú©Ú†Ú¾ Ú©Ù…ÛŒ بیشی کرے تو اس Ú©Ùˆ کوئی بیوقوف بھی تØ+ریف نہ کہے گا۔ ایک طبیب نسخہ لکھتا ہے۔ بیمار اپنی طرف سے اس میں دوائیں گھٹاتا بڑھاتا ہے تو وہ مریض یقینا مجرم ہے لیکن اگر طبیب ہی مریض Ú©ÛŒ Ø+الت میں تبدیلی Ú©ÛŒ بناء پر اپنے نسخے میں Ú©Ú†Ú¾ تبدیلی کرتا ہے تو یہ طبیب Ú©ÛŒ قابلیت اور نسخ Ú©Û’ مکمل ہونے Ú©ÛŒ دلیل ہے نہ کہ نسخے Ú©ÛŒ تØ+ریف۔ یہی قرآن پاک میں ہوا کہ بعض سورتوں میں Ø+الات Ú©Û’ موافق خود قرآن بھیجنے والے خدا Ú©ÛŒ طرف سے ہی اØ+کام بدلے گئے۔ نسخ Ú©ÛŒ پوری تØ+قیق ہم انشاءاللہ تعالٰی اس آیت Ú©Û’ ماتØ+ت لکھیں Ú¯Û’ کہ ماننسخ من آیۃ انتظار کریں۔


سوال -- مسلمانوں Ú©ÛŒ بعض جماعتیں (جیسے کہ شیعہ) کہتی ہیں کہ قرآن میں سے دس پارے Ú©Ù… کردئے گئے۔ اور اس قرآن میں سورہ Ø+سنین سورہ علی اور سورہ فاطمہ بھی تھیں۔ پتہ نہیں لگتا کہ وہ کہاں گئیں۔ پھر آپ کس منہ سے کہتے ہیں کہ قرآن پاک Ù…Ø+فوظ ہے۔
جواب -- کسی بیوقوف شیعہ Ù†Û’ Ú¯Ù¾ بانکی ہوگی۔ Ù…Ø+ققین شیعہ تو بڑے شد Ùˆ مد Ú©Û’ ساتھ اس سے اپنی برات ثابت کرتے ہیں۔ مثلا ملاصادق، شرØ+ کلینی میں، Ù…Ø+مد ابن Ø+سن آملی، شیخ صدوق ابو جعفر Ù…Ø+مد بن علی بابویہ وغیرہ۔ اور کیوں ثابت نہ کریں، اس لئے کہ اس عقیدے سے تو اہل بیت عظام Ú©Û’ اسلام Ú©ÛŒ ہی خیر نہ رہے گی۔ کیونکہ پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین Ù†Û’ اس Ù…Ø+رف قرآن Ú©Ùˆ اپنی نمازوں میں کیوں پڑھا اور اس سے اØ+کام کیوں جاری فرمائے اور قرآن پاک Ú©Ùˆ تØ+ریف ہوتا ہوا دیکھ کر خاموشی کیوں اختیار کی۔ کیوں نہ سربکف ہو کر میدان میں Ù†Ú©Ù„Û’Û” اور قرآن پاک Ú©ÛŒ Ø+فاظت فرمائی۔ اگر وہ اس کام Ú©Ùˆ کرتے تو تمام مسلمان اس Ú©ÛŒ امداد کرتے۔ اگر نہ بھی کرتے تو خدا تو امداد کرتا۔ اور خدا بھی امداد نہ کرتا اور جان جاتی تو شہید ہوتے۔ جب مسئلہ خلافت کےلئے امیر معاویہ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے جنگ ہوسکتی تھی تو Ø+فاظت قرآن کےلئے خلفائے ثلاثہ سے بھی جنگ ہوسکتی تھی۔ اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔ اور اگر Ú©Ú†Ú¾ بھی نہ ہوتا تو Ø+ضرت علی مرتضٰی اللہ تعالٰی عنہ Ú©Û’ زمانہ خلافت سب Ú©Û’ بعد تھا۔ اس زمانہ میں خلفائے ثلاثہ پردہ فرماچکے تھے۔ کسی کا خوف نہ تھا تو اصلاØ+ فرمانی ضروری تھی۔ شہید کربلا، سیدا شہداء امام Ø+سین رضی اللہ تعالٰی عنہ جہاں یزید Ú©ÛŒ بیعت Ú©Û’ مقابلہ میں جان دے سکتے تھے وہی شہباز اسلام پروانہ شمع رسالت رضی اللہ تعالٰی عنہ اس مسئلہ Ø+فاظت قرآن پر بھی اپنی جان قربان کرسکتے تھے۔ ان تمام Ø+ضرات کا بلا اعتراض قرآن پاک Ú©Ùˆ قبول فرمالینا اس Ú©ÛŒ صØ+ت Ú©ÛŒ Ú©Ú¾Ù„ÛŒ ہوئی دلیل ہے۔ کون ایسا بےوقوف شیعہ ہوگا جو کہ اپنے ائمہ دین پر اس قدر اعتراض گوارا کرکے قرآن پاک Ú©ÛŒ تØ+ریف کا قائل ہوگا۔ اس Ú©ÛŒ زیادہ تØ+قیقی منظور ہو تو تفسیر فتØ+ المنان کا مطالعہ کریں باقی اور واہیات اعتراض جو کئے جاتے ہیں مثلا ایاک نعبد وایاک نستعین پر۔ یا قرآن پاک میں انبیاء کرام Ú©Û’ قصوں Ú©Û’ بار بار آنے پر۔ چونکہ ان کا تعلق Ø+فاظت قرآن سے نہیں اس لئے ہم ان Ú©Ùˆ یہاں بیان نہیں کرتے بلکہ اس آیت Ú©Û’ ماتØ+ت بیان کریں Ú¯Û’Û” ان کنتم فی ریب مما نزلنا النØ+Û” ناظرین اس کا انتظار کریں۔
تتمۃ بØ+Ø«:Û” قرآن پاک کا طریقہ تØ+ریر بھی Ø+ضور صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے منقول ہے چنانچہ خراپوتی شریف قصیدہ بردہ میں کتب معتبرہ سے نقل کیا کہ Ø+ضور صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ Ú©Ùˆ جو کاتب ÙˆØ+ÛŒ تھے قلم کا ہاتھ میں لینا دوات کا موقعہ پر رکھنا ب Ú©Ùˆ سیدھا کرنا۔ سین Ú©Ùˆ متفرق کرکے لکھنا Ù… Ú©Ùˆ ٹھیڑھا نہ کرنا وغیرہ سکھاتے تھے۔ اس لئے قرآن پاک Ú©ÛŒ تØ+ریر اس Ú©ÛŒ تلاوت ہر ایک میں سنت کا اتباع لازم ہے۔